صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے تین اہم پرو اسرائیل عہدیداروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکی پالیسی میں توازن اور مشرق وسطیٰ میں نئی حکمت عملی کے تحت کیا گیا ہے۔
اسرائیل کے معروف اخبار Yedioth Ahronot کے مطابق، ان تبدیلیوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو غیر معمولی دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ اخبار کے مطابق، نیتن یاہو اس دباؤ کو عوام کے سامنے ظاہر نہیں کر رہے، لیکن تل ابیب کی اندرونی سیاسی فضا میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ برطرف کیے گئے افراد وہ تھے جو گزشتہ عرصے میں اسرائیل کی کھلی حمایت اور فلسطینی امور میں سخت گیر موقف رکھتے تھے۔ ٹرمپ کی نئی مدت میں، ان کی ٹیم اب متوازن اور امریکہ فرسٹ پالیسی کی طرف واپسی کا اشارہ دے رہی ہے۔
ان اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن اب اسرائیل کے بجائے وسیع تر جیوپولیٹیکل تقاضوں کو سامنے رکھ کر فیصلے کرے گا — خصوصاً جب مشرق وسطیٰ میں ایران، ترکی، اور چین جیسے کھلاڑی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ امریکہ-اسرائیل تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز ہو سکتا ہے، اور نیتن یاہو کی حکومت کو آئندہ دنوں میں امریکی پالیسی میں مزید "سردمہری” کا سامنا ہو سکتا ہے۔