ایڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بھارت اگلے دس سالوں میں اپنا پہلا ففتھ جنریشن فائٹر طیارہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ خبر جہاں قوم پرستی کے جذبات کو تقویت دیتی ہے، وہیں ماہرین اور تجزیہ کار اس پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس منصوبے کو صرف ایک ٹیکنیکل چیلنج نہیں بلکہ ایک مکمل نظامی اصلاح درکار ہے۔
فنی صلاحیت ممکن ہے، مگر…
تکنیکی طور پر، اگر کوئی ملک سنجیدہ ہو تو 10 سال ففتھ جنریشن طیارہ بنانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ لیکن بھارت کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ بغیر کسی بڑی دفاعی طاقت کی مدد کے بھارت کا تن تنہا یہ ہدف حاصل کرنا ناممکن نہیں تو نہایت مشکل ضرور ہے۔ اور اگر بھارت نے واقعی مکمل طور پر خود انحصاری کے ساتھ یہ منصوبہ شروع کیا تو نتائج دیکھنے کے لیے ہمیں شاید اگلی نسل کا انتظار کرنا پڑے گا۔
بیوروکریسی: ترقی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ
بھارتی دفاعی منصوبوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی افسر شاہی اور سیاسی مداخلت ہے۔ ایک فائل منظوری کے لیے مہینوں مختلف دفاتر میں گھومتی ہے۔ ہر نئی حکومت اپنے ساتھ "نیا وژن” لے آتی ہے، جو جاری منصوبوں کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔
رافال ڈیل اس کی واضح مثال ہے۔ اس میں تکنیکی ضرورتوں سے زیادہ سیاسی پسند و ناپسند کا دخل رہا، جس کے باعث عالمی سطح پر بھارت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
تیجس اور ماروت: ماضی کی ناکامیاں
بھارتی حکومت کا پہلا مقامی فائٹر طیارہ ماروت 1960 کی دہائی میں تیار کیا گیا، لیکن جدید انجن اور ایویونکس نہ ہونے کے باعث وہ چند سالوں میں ریٹائر ہو گیا۔ اس کے بعد تیجس پر کام شروع ہوا جو آج بھی جزوی طور پر ہی آپریشنل ہے۔ اس پر بھی انڈین ایئر فورس نے تحفظات کا اظہار کیا اور مکمل اعتماد نہیں کیا۔
Kaveri انجن: تین دہائیاں اور ناکامی
بھارت کا انڈیجنس جیٹ انجن Kaveri بھی تین دہائیوں کے بعد ناکامی سے دوچار ہوا۔ اب خبریں ہیں کہ بھارت اسے فرانس کی مدد سے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، یعنی "فرنچ میڈ، انڈین لیبل”۔
سوال یہ ہے: کیا بھارت کامیاب ہو سکے گا؟
ماہرین کے مطابق ففتھ جنریشن فائٹر بنانا صرف ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس کے لیے ادارہ جاتی ہم آہنگی، پالیسی کا تسلسل، اور سیاسی مداخلت سے آزادی درکار ہے۔ جب تک بھارت ان بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتا، ہر نیا منصوبہ یا تو "ماروت” کی طرح فیل ہو گا یا "تیجس” کی طرح صرف فضائی مظاہروں تک محدود رہے گا۔
اختتامیہ:
ففتھ جنریشن طیارہ بھارت کے لیے ایک باعزت مقام اور دفاعی خودمختاری کی علامت ہو سکتا ہے، لیکن اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے صرف دعوے نہیں بلکہ گہرے نظامی و ادارہ جاتی اصلاحات درکار ہیں۔ ورنہ یہ منصوبہ صرف پریس کانفرنسز، اشتہارات اور نیشنلزم کی تقریروں تک محدود رہے گا۔
اگر آپ اسے CMS (مثلاً WordPress) میں اپلوڈ کر رہے ہیں تو میں Meta Description، Keywords اور SEO-Friendly URL بھی تجویز کر سکتا ہوں۔ بتائیں تو؟